''راحت اندوری ہونے کا مطلب '' اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹرراحت اندوری کا بروزمنگل کو انتقال ہو گیا۔

 

 اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹرراحت اندوری کا  بروزمنگل11 اگست کو انتقال ہو گیا۔ اپنے نغموں سےاقلیتوں کے زخم پر مرہم رکھنے والا،راحت پہنچانے والا چلاگیا۔   ان کے انتقال کی خبر کے بعد جناب نایاب حسن کا زیر نظر مضمون “راحت اندوری ہونے کا مطلب” ایک سوشل میڈیاگروپ پر ملا۔ ہم نایاب حسن صاحب کے شکریہ کے ساتھ اسے یہاں شائع کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر راحت اندوری نہیں رہے۔
اردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹرراحت اندوری 


نایاب حسن

 

صبح ہی خبرملی تھی کہ راحت اندوری کورونا سے متاثر ہوگئے ہیں اور شام ہوتے ہوتے ان کے جاں ہار ہونے کی خبر بھی آ گئی

یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا

میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا

کیسا دلچسپ انسان تھا اور کیسا انوکھا شاعر۔ جس کی زبان میں شفافیت تھی اور لہجے میں بے باکی، جو ایک فن کار شاعر تھا اور اس کی فنکاری کے سامنے بڑے بڑوں کا چراغ کجلا جاتا تھا،  جس نے کم و بیش نصف صدی تک اردو و ہندی مشاعروں کی دنیا پر راج کیا اور ایک عالم کو اپنا قائل معقول کیے رکھا۔ وہ تخیلاتی دنیا سے زیادہ عالمِ حقائق کی ترجمانی کرتا تھا اور یہ ترجمانی کبھی کبھی نہایت تلخ صورت دھار لیتی، مگر وہ اپنی طبیعت اور افتاد و مزاج سے سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے حسن و عشق کے خیال انگیز موضوعات پر بھی خوب صورت غزلیں کہیں، مگر اس سے زیادہ خوب صورتی اور مہارت کے ساتھ اس نے سماجی انتشار پر شاعری کی اور سیاسی جبر کو واشگاف کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں مست مولا ٹائپ شاعر تھا، اسٹیج کوئی بھی ہو اور اسٹیج پر سرکار والا تبار کے کیسے ہی جلیل القدر نمائندے بیٹھے ہوں، راحت اندوری وہی پڑھتا ،جو اسے پڑھنا ہوتا۔

سامعین اور منتظمین

وہ اشعار پڑھتے ہوئے سامعین کے موڈ کا تو لحاظ کرتے تھے، مگر منتظمین مشاعرہ اپنے مطلب کی شاعری ان سے نہیں پڑھوا سکتے تھے۔ اشعار پڑھنے کا ان کا انداز بھی دلچسپ تھا، ایسا لگتا کہ شعر پڑھنے اور سامعین کے حوالے کرنے سے پہلے وہ خود اس شعر کا مزا لینا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک کمال یہ بھی تھا کہ دو چار اشعار کے بعد ہی انہیں اندازہ ہو جاتا کہ سامعین کا مجمع کس ذوق و مزاج کا حامل ہے اور پھر اسی کے مطابق اشعار پڑھتے۔

راحت اندوری کی شخصی زندگی کا ہمیں علم نہیں، مگر ایک بڑے شاعر اور سلیبریٹڈ شخصیت ہونے کی حیثیت سے ملکی مسائل و معاملات پر بھی ان کا موقف نہایت واضح اور دوٹوک ہوتا تھا۔ انہیں ذاتی منفعت و نقصان سے زیادہ اجتماعی و قومی مفاد عزیز رہتا تھا؛ چنانچہ جہاں وہ ہزاروں کے مجمعوں میں ملک کے سیاسی و سماجی ماحول پر شاعرانہ تبصرے کرتے، وہیں ضرورت پڑنے یا صحافتی اداروں کے رابطہ کرنے پر کھل کر حالات حاضرہ پر اظہار خیال بھی کرتے۔ انہیں کوئی بھی سیاسی طاقت مرعوب نہ کر سکی۔انہوں نے ستر کی دہائی میں ایمرجنسی کے خوفناک دورانیے میں بھی اپنے بے باک لب و لہجے کا جادو جگائے رکھا اور آج کے فسطائی عہد میں بھی ان کی زبان و قلم کا سفر اسی رفتار اور تیور کے ساتھ جاری و ساری رہا۔ ایک غزل انہوں نے کئی دہائی قبل کہی تھی جس کا مطلع تھا:

اگر خلاف ہیں،  ہونے دو، جان تھوڑی ہے

یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے

اور اسی کا ایک شعر تھا:

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں

کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے

اس غزل کے دوسرے اشعار بھی خاصے معنی خیز ہیں اور جب انہوں نے پہلی بار یہ غزل کہی تھی، تبھی اسے اردو حلقوں میں غیر معمولی شہرت ملی، مگر کئی دہائی بعد جولائی  2017 میں جب وہ کپل شرما کے شو میں مدعو کیے گئے اور وہاں انہوں نے اس غزل کو پڑھا، تو اس کے بعد اسے ہندوستان گیر سطح پر از سر نو شہرت ملی اور گویا بچے بچے کی زبان پر یہ شعر چڑھ گیا۔ گرچہ یہ کافی پرانا تھا، مگر موجودہ ماحول میں ملک کے ستم رسیدہ، مظلوم و مجبور حلقوں کو اس سے خاصی توانائی اور حوصلہ ملا، عام شہریوں کی دیش بھکتی پر سوال کرنے والے نرگسیت زدہ بھگوائیوں کے سامنے لوگ اس شعر کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ پچھلے سال دسمبر کے وسط میں جب این آر سی اور سی اے اے کو لے کر ملک گیر احتجاج شروع ہوا، تو احتجاج کرنے والے شہریوں کے حوصلہ و جذبہ کو ابھارنے میں متعدد مرحوم شعرا کے ساتھ راحت اندوری اور ان کی شاعری کا بھی خاص کردار رہا۔ اس زمانے میں اگر آپ پورے ملک کے سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں میں جاری دھرنوں کا دورہ کرتے اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود پلے کارڈز اور بینر وغیرہ پر نظر دوڑاتے، تو ہر جگہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں راحت صاحب کا مذکورہ بالا شعر ضرور نظر آجاتا۔ چوں کہ وہ شعر براہِ راست این آر سی اور سی اے اے جیسے موضوع سے جڑا ہوا لگتا تھا؛ اس لیے اسے سننے اور پڑھنے میں اور بھی توانائی کا احساس ہوتا تھا۔ اس احتجاج کے دوران اس شعر کی اس حد تک مقبولیت کی وجہ سے انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے25 دسمبر 2019  کو خاص اس شعر کے حوالے سے ایک  اسٹوری بھی شائع کی تھی اور اسی مناسبت سے اخبار نے ان سے بات چیت بھی کی تھی۔ اس اسٹوری میں ان کی گفتگو کے کئی اقتباس نقل کیے گئے تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ ”میرے آس پاس جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر اگر میں نہ لکھوں،  تو میرے اور نیرو کے درمیان کیا فرق رہ جائے گا؟ اگر میرے شہر اور ملک میں آگ لگی ہوئی ہے اور میں اپنی محبوبہ کی زلفوں کی شان میں قصیدے لکھ رہا ہوں، تو یا تو میں اندھا ہوں یا بہرا ہوں“۔

راحت اندوری کی یہ بات در اصل ادب اور معاشرہ کے باہمی ربط کو بیان کرتی ہے۔ دونوں کے رشتوں کی وضاحت کرتی ہے۔ یہیں سے ہمیں اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ حقیقی ادب وہ ہے، جو تخلیق ہونے کے بعد قبل اس کے وردی پوش ناقدین اس کے ادبی مقام و مرتبے کا تعین کریں، براہِ راست اپنے مخاطب تک پہنچتا ہے اور اس کے ذہن و دل پر اثر انداز ہوجاتا ہے۔ بلا شبہ راحت اندوری نے تا زندگی ایسی ہی شاعری کی، ان کے اشعار ادبی و تنقیدی اعتبار سے کس مقام و مرتبے کے حامل ہیں، اس سے قطع نظر یہ ایک بین حقیقت ہے کہ انہوں نے ایک جہان کو اپنے لب و لہجے، دلچسپ طرز ادا، اپنی خیال افروزی، اپنی بے باکی، اپنی تخلیقی ہنر مندی، اپنی فنکاری اور اپنے غیر معمولی حوصلہ مندانہ تیوروں کا اسیر کیے رکھا۔ ان کی آواز اس ملک کے کروڑہا لوگوں کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوتی تھی، انہیں خود بھی اس چیز کا احساس تھا، سو وہ ہر اس مسئلے پر اپنی شاعری کے ذریعے بے باکانہ اظہار خیال کرتے تھے، جس کا تعلق عوام، سماج اور اسے متاثر کرنے والی سیاست سے ہوتا تھا۔

 

راحت اندوری کی خاص خوبی فکر و خیال کی استقامت بھی تھی۔ انہوں نے کبھی بھی حالات کے حساب سے اپنا موقف تبدیل نہیں کیا۔ چاہے وہ سیاسی موقف ہو یا فکر و عقیدے کا معاملہ ہو۔ مقبولیت و شہرت کی معراج تک بھی پہنچے اور بسا اوقات تنگی و ترشی کا دور بھی آیا، مگر تخلیقی سفر کی ایک سمت جو متعین کی، اسے بدلنے کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ وہ اپنی بہت سی عملی کوتاہیوں کا بھی برملا اظہار کرتے تھے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا دل ایمان و ایقان میں پختہ اور ان کا ذہن و ضمیر عقیدہ و مذہب کے باب میں مستقیم تھا۔ ان کے نعتیہ اشعار اور خدا کی وحدانیت و توکل کو آشکار کرنے والے ان کے مصرعے ان کی اندرونی کیفیات کا واضح بیانیہ ہیں۔

راحت قریشی المعروف بہ راحت اندوری کی پیدایش 1950 میں اندور میں ہوئی۔ گریجویشن اسلامیہ کریمیہ کالج سے پاس کیا اور پوسٹ گریجویشن برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے مکمل کیا اور مدھیہ پردیش بھوج یونیورسٹی سے ’’اردو میں مشاعرہ‘‘کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کچھ دن درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے، پھر کل وقتی شاعر ہوگئے اور مشاعرہ خوانی کے سلسلے میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کے بیسیوں ملکوں کو ناپ ڈالا۔ منا بھائی ایم بی بی ایس، مرڈر، عشق سمیت درجن بھر سے زائد بالی ووڈ کی فلموں میں گانے بھی لکھے۔ رت، میرے بعد ، دھوپ بہت ہے، ناراض، موجود، چاند پاگل ہے وغیرہ ان کے شعری مجموعے ہیں ،  جو اردو کے ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ خود راحت اندوری پر متعدد ادبی رسالوں نے ان کی زندگی میں ہی خاص نمبر نکالے۔ ان کی شخصیت اور شاعری پر ایک کتاب طارق شاہین اور عزیز عرفان نے 2002 میں مرتب کی تھی، جو ساڑھے چار سو صفحات سے زائد پر مشتمل ہے اور اس میں سردار جعفری ، قمر رئیس ، عبدالقوی دسنوی، وامق جونپوری، رفعت سروش، مظفر حنفی، عتیق اللہ، زبیر رضوی، عنوان چشتی، ظفر گورکھپوری، کیف بھوپالی، قیصر الجعفری، ندا فاضلی ، بشیر بدر،  اسعد بدایونی،  رؤف خیر اور منور رانا سمیت دیگر درجنوں ناقدین،  معاصر شعرا اور تخلیق کاروں کی تحریریں اور تاثرات جمع کیے گئے ہیں۔ راحت اندوری کی شخصیت اور ان کے فن کی تفہیم میں اس کتاب سے خاصی مدد مل سکتی ہے

پر پڑھتے رہنںbaseerscreation اس طرح کی دیگر معلومات کے لیے 

No comments:

Post a Comment